Saturday, November 2, 2019

تیرا میرا مول - امر جليل - یاسر قاضی


تیرا میرا مول
[ سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ ]
(تحرير: امر جليل | ترجمہ: یاسر قاضی)

ہمارے اڑوس پڑوس والوں نے جب سے ڈِیپ فريزر خریدے ہیں، تب سے عيدالضحٰے کے موقع پر انہوں نے پابندی کے ساتھ ایک عدد جانور کی قربانی کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ عيد سے کچھ دن قبل ان کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے؛ بلکہ رُوح پرور ہوتا ہے۔ اونٹ، بيل، گائے، بھینسیں، سانڈ، بکرے اور دُنبے خريد لاتے ہیں۔ جانوروں کو رنگ روپ اور مہندی لگا کر، زريوں والی جهالریں ڈال کر، اُن کے حُسن کو چار کے قریب چاند تو چپکا ہی دیتے ہیں- عيد سے پہلے والی تمام راتیں ان جانوروں کے ساتھ خود سو کر گزارتے ہیں- اور جاگنے کا کام پڑوسیوں کے حوالے کر دیتے ہیں- طرح طرح کے جانور رات بھر بھانت بھانت کی بولیوں اور آوازوں سے کانوں کے پردوں کے ساتھ آسمان بھی پھاڑ دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کسی ایسی جگہ کا ذرا تصوّر تو کر کے دیکھیں، جہاں بيک وقت اونٹ، گائے، بھینسیں، بيل، سانڈ، بکرے اور دُنبے موجود ہوں اور چیخ چیخ کر مشترکہ احتجاج کے لیے اپنی آوازیں بلند کر رہے ہوں!
ہم، يعنی میں اور میرا بھائی "چينو" ایسے ہی ایک عبرتناک محلے میں رہتے ہیں اور، سال میں ایک مرتبہ اس دہشتناک تجربے سے گذرتے ہیں۔


نیند نہ مجھے آ رہی تھی، اور نہ چينے کو۔ ہم دونوں ہی جاگ رہے تھے- صحن میں لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں آسمان پہ ٹکا کے رکھی تھیں، اور چينو "طلسمِ ہوشربا" پڑھنے میں محو تھا، اور تقریباََ ہوش سے نکلا جا رہا تھا۔
چينے نے کہا، "بھائی، آجکل کے اخبارات میں سے اگر ڈاکوں، قتل، دہشتگردیوں اور دہشتگردی کی وارداتوں کے بعد ريوڑیاں بانٹنے کی خبریں یکجاء کر کے کتابی صورت میں شايع کی جائیں تو "طلسم ہوشربا" سے زیادہ ہوش اڑانے والی کتاب تيار ہو سکتی ہے!"
میں نے جواب دیا، "تجھے ملازمت ولازمت تو ملنی ہے نہیں۔ تُو جب بڑا ہو جائے، تو یہ کام کرنا۔"
چينے نے پوچھا، "بھائی، جيل کے باہر کھڑے پوليس والے "ولُّو" کو بھی تو دہشتگردوں نے گولی مار کر مار دیا تھا ناں؟"
میں نے فلک کی وُسعتوں سے اپنی آنکھیں ہٹا کر چينے کی طرف دیکھا۔ بولا، "مجھے پتا ہے کہ اس کے بعد تُم کون سا سوال کرنے والے ہو۔"
اس نے حيران ہو کر پوچھا، "تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں کون سا سوال کروں گا؟"
میں نے جواب دیا، "تم اور میں، کُوزہ گر کے گارے میں بُھولی ہوئی مٹّی سے بنے ہوئے انسان ہیں۔ ہم دونوں پاگل ہیں۔"
ایسا لگا کہ چينے کو میری بات کا يقين نہیں ہوا- اس نے کہا، "اچھا بھلا بتاؤ کہ میرا اگلا سوال کیا تھا؟"
میں نے کہا، "پہلے کوئی شرط تو رکھو۔ آجکل لوگ ثواب بھی انعام کے لالچ کے سوا نہیں کماتے۔"
اس نے پوچھا، "دس روپے والا ريفل ٹکٹ خریدا ہے کیا؟"
میں نے کہا، "ہاں، ایک ٹکٹ لیا ہے۔"
پوچھا، "کتنے انعام کے لالچ میں؟"
میں نے کہا، "بیس لاکھ ۔"
چينو اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ بولا، "ريفل والوں کا حساب ہے جُوئا کی طرح چانس پر۔ تم ایسا کرو۔ دہشتگردوں کے ہاتھوں گولياں کھا کے مرجاؤ۔ تمہیں حکومت کی طرف سے ایکدم بِیس لاکھ مل جائیں گے۔" چينے کے مُنہ میں جو آیا، بولتا گیا؛ پر، جملہ بول چُکنے کے بعد ہی جیسے ساکت ہو گیا۔ پتھر بن گیا۔ ٹکٹکی باندھ کر میری جانب دیکھتا رہا۔ پھر، اچانک سے، اُچھل کر مجھ سے آ لپٹا۔
بمشکل چھ سات برس کا ہے۔ میری روح ہے وہ- کائنات میں سب سے زیادہ پيارا ہے مجھے۔ میرا چہرہ چُومتے ہوئے رو پڑا۔
"ارے پاگل!"میں بولا، "کیا ہوا؟ رو کیوں رہے ہو؟"
میں نے اسے گلے لگایا۔
بولا، "میں نے ایسا کیوں کہا، کیوں کہاں۔"
"کیا ہو گیا پھر، اگر تم نے کہہ بھی دیا تو۔" میں اُسے پیار کرتے ہوئے بولا، "مجھے اپنی قدر معلوم ہے چينے! میں اگر دہشتگردوں کے ہاتھوں مارا بھی گیا تو سرکار سے زیادہ سے زیادہ دس روپے ہی مل پائیں گے۔ یہی معاشرے میں میرا مول ہے۔ معاوضہ ہے۔"
چينے نے پُوچھا، "اور جيل کے باہر کھڑے پوليس والے "ولُّو" کی قدر کتنی ہے؟ جو دہشتگردوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔"
"کچھ يقين سے کہا نہیں جا سکتا چينے۔" میں بولا، "آجکل سبزیوں اور مونگ پھلیوں کی قيمت لگ بھگ برابر ہے۔ دل کرے تو اسے ایک کروڑ روپے دے دیں گے۔ ورنہ اس کی بيوه کو ایک تمغہ، ایک سَند، پانچ سو روپوں کا چيک اور اس کے پانچ سال کے بیٹے کو کانسٹیبل کے طور پر ملازمت دینے کا وعدہ- رہے نام الله کا!"
اُسی وقت دروازے پر دستک ہوئی- ایک بار، دوسری بار۔۔۔
چينے نے دوڑ لگا کر کھولنے کے لیے دروازے کی کنڈی میں ہاتھ ڈالا۔
میں نے چيخ کر بولا، "دیکھنا چينے! کوئی دہشتگرد يا ڈاکو نہ ہو۔"
چينے نے جواب دیا، "کوئی بھی دہشتگرد ہم پر اپنی قيمتی گولی کیوں ضايع کرے گا، اور کوئی بھی ڈاکو ہمیں تاوان کے لیے اغوا نہیں کرے گا۔ غلطی سے اگر کسی نے اغوا کر بھی لیا، تو اُلٹا پيسے دے کر واپس چھوڑ جائے گا اور آئنده کے لیے توبہ کر لے گا۔"
چينے نے دروازہ کھول دیا۔
ایک بدحواس شخص ہانپتا کانپتا اندر چلا آیا، اور ہاتھ جوڑ کر گِڑگڑانے لگا،
"خدا کے واسطے مجھے پناہ دو۔ مُجھے چھپاؤ۔ وہ مُجھے مار دینگے۔"
چينے نے دروازہ اندر سے بند کر دیا۔
وہ احسانمند نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگا-

[ 1991 میں تحریر شدہ ]

(منگل، 29 صفرالمظفر 1441ھ ــ 29 اکتوبر 2019ء)

No comments:

Post a Comment