Monday, June 8, 2020

ردا - تنوير عبّاسی - یاسر قاضی


ردا
(سندھی افسانے کا اردو ترجمہ)
تحرير: تنوير عبّاسی
ترجمہ: یاسر قاضی
میں نے اُسے پہچانا ہی نہیں۔ اس میں میرا قصور نہ تھا۔ وہ واقعی کافی بدل چکا تها۔ ملا بھی برسوں بعد تها۔ اس کے گالوں میں کھڈے پڑ گئے تھے۔ بال اُجڑے سے تھے، جن میں شاید کئی دنوں سے اس نے تيل نہیں ڈالا تھا۔ اس کا رنگ، دُهوپ میں پڑے کسی پتّے کی طرح جُهلس گیا تھا۔ اس کے کپڑے بھی ميلے ہوگئے تھے۔ جن کے اندر سے پسینے میں میلی اس کی بنيان تک نظر آ رہی تھی۔


مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی رفیق ہے، جو پورا ایک سال میرے ساتھ پڑھا تھا، جس کا چہرہ بھرا بھرا اور رنگ نکھرا نکهرا سا ہوا کرتا تها۔ جس کے بال ہمیشہ سنورے ہوئے رہتے تھے۔ اور جس کی پیشانی پر ہمیشہ ایک لٹ لہراتی نظر آتی تھی، اور ہمیشہ صاف پینٹ اور رنگين ”بش ـ شرٹ“ میں ملبُوس نظر آتا تھا۔
میں اور رفيق چَھٹی کلاس میں ايک ساتھ پڑھے تھے۔ اُس زمانے میں جب ماسٹر جی ہمیں پڑھاتے تھے، تو یہ اپنی نوٹ بک میں ماسٹر صاحب کے کارٹون اور ہم کلاس لڑکیوں کے اسکيچ بنانے میں مشغُول نظر آتا تها۔ اور جب کلاس پُوری ہونے کے بعد مجھے وہ کارٹون دکھاتا تھا، تو ہم دونوں مل کر ان پر بڑے بڑے قہقہے لگایا کرتے تھے، اور تھوڑی دیر بعد اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ کِھلتی نظر آتی تھی، جیسے ان قہقہوں کی صُورت اُسے اس کی محنت کی قيمت مل گئی ہو۔
پُورا سال اس نے استادوں کے کارٹونز اور لڑکیوں کے اسکیچز بنانے میں گزار ديا، اور جب امتحان کا نتيجہ آيا تو ظاہر ہے کہ وہ پاس نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد اس سے ملنے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ کیونکہ میں پاس ہو گيا تها، اور رفيق اسی کلاس میں بیٹھا ٹیچرز کے کارٹون اور لڑکیوں کے اسکيچ بناتا رہتا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ اسے اسکول سے نکال ديا گيا ہے۔ اس نے بورڈ پر ہیڈ ماسٹر صاحب کا کارٹون بنا دیا تھا۔ اس جرم میں اسکول سے نکلنے کے بعد، پهر مجھے وہ نظر نہیں آيا، اور پهر جلد ہی میں نے کراچی چھوڑ کر حيدرآباد میں اپنی تعليم جاری رکھی۔
آج تين برس بعد جیسے ہی میں چائے پینے کے لیے میں ريستوران میں داخل ہو رہا تھا، تو اس نے مجھے بازُو سے پکڑ کر اپنی طرف کهينچا۔ واقعی پہلے میں نے اسے بالکل نہیں پہچانا، مگر پهر غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ وہی رفيق ہے۔۔۔ اسکيچز اور کارٹونز والا رفيق۔۔۔ جس کا مُنہ بهرا بهرا ہوا کرتا تھا۔ جو ميرے ساتھ بڑے بڑے قہقہے لگايا کرتا تها۔
میں اس کو اپنے گھر لے آیا۔ اس نے بتایا کہ اسے اپنے گهر سے نکال ديا گيا ہے۔ اسی فن کے شوق کی وجہ سے۔ اس کے والد کا کہنا تھا کہ وہ رنگوں اور برشز پر بيکار کا خرچہ کرتا ہے اور ہمیشہ اس کے کپڑوں پر رنگوں کے داغ نظر آتے ہیں۔۔۔ وہ اپنا وقت بيکار ضايع کر رہا ہے۔۔۔ اس لیے وہ یہ شوق چھوڑ دے۔۔۔ مگر وہ بدستُور تصويريں بناتا رہا۔ کبھی دريا کی مست لہروں کی۔۔۔ تو کبھی مشرق کی جانب اٹھنے والی شفق کی دلفريب لالائی کی۔۔۔
اس کے بعد گفتگُو کا موضوع بدلا اور ہم اُس وقت کے حالات پر بات کرنے لگے۔ یہ وہ وقت تها، جب لوگوں میں اپنی قوميت کا احساس اُبهر چکا تها، اور ہر جانب سے اپنی تہذیب کو بچانے کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ نؤجوان طبقہ کافی بيدار ہو چکا تها، مگر رفیق کافی جذباتی ہو چکا تھا۔ اس نے کہا: ”اب سب کچھ چھوڑ کر، میں نے اپنے وطن کو تصويروں میں پینٹ کرنا شروع کر ديا ہے۔“ اس نے مجھے کچھ تصويریں بھی دکھائیں۔ سکهر بيراج۔۔۔ لينسڈاؤن پُل۔۔۔ سندھی لڑکیوں کے کُنویں پر جھرمٹ۔۔۔ ایک سندھی چرواہا، اپنی بکریوں کے ساتھ ۔۔۔ کوٹری بيراج کے کنارے پر خانہ بدوشوں کے ڈيرے۔۔۔ ان تمام ںظاروں کو اس نے رنگوں میں قید کر لیا تھا۔ اس نے حضرت شاہ عبداللطيف بھٹائی کے ابيات کو تصویروں میں پيش کرنا شروع کيا تها۔ ”نُوری“، ”سسئی“، ”مارئی“ یہ تمام اس نے پینٹ کی تھیں۔ ان میں سے مجھے ”مارئی“ کی پینٹنگ بیحد پسند آئی۔ اس میں دکهايا گيا تها کہ ايک عاليشان محل میں مارئی، زمین پر لیٹی ہوئی ہے۔ اس کے بال پريشان ہیں۔ اور اس کے سادہ اور ميلے کپڑے تار تار ہو گئے ہیں۔ اور وہ ان پَھٹے ميلے کپڑوں میں سے نظر آنے والے اپنے بدن کو اپنی ردا سے ڈھانپنے اور چُھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
”اِس تصوير کی قيمت کتنی ہوگی؟“
میں نے ويسے ہی اس سے پُوچها۔
”اس تصوير کی قيمت؟“
اس کے ہونٹوں پر طنزيہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”لوگوں کے پاس پیسہ کہاں ہے ایسی تصویروں پر خرچ کرنے کے لیے! ان کو تو فلم ايکٹريسز کی نيم برہنہ تصویریں چاہییں۔“
یہ کہتے ہوئے اس کا دل بھر آیا اور کہا:
”ہمارے عوام بھوکے ہیں بھائی جان! ان کو جنسی بُهوک بهی ہے۔۔۔ تو رُوح کی بُهوک بهی۔۔۔ ان کا بھی تو کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کو تو کسی نہ کسی طرح اپنی بُهوک مٹانی ہے۔ اور آرٹسٹ؟ وہ بھی بھوکے ہیں۔ پیٹ کے بُھوکے۔ گويا یہ بھی ایک بھوک کا سودا ہے۔ آرٹسٹ عوام کی بُھوک مٹاتے ہیں۔۔۔ اور عوام آرٹسٹوں کی۔۔۔“
دو تين دن میرے پاس رہنے کے بعد وہ روزگار کی تلاش میں نکل گيا۔ اور اس کے خط مجھے موصول ہوتے رہے۔ کبھی لاڑکانے سے تو کبھی سکهر سے۔۔۔ کبھی کہیں سے۔ تو کبھی سے۔۔۔  پہلے وہ جلدی جلدی خط لکها کرتا تها اور پهر آہستہ آہستہ یہ خطوں کا سلسلہ اس کی جانب سے منقطع ہو گیا۔ اس کے خطوں میں ہمیشہ فن کی قدر نہ ہونے کا مستقل شکوہ ہوا کرتا تھا۔
ایک برس بعد اچانک ايک دن اس کا خط موصول ہوا، جس میں اس نے اپنے آنے سے متعلق لکها۔
جس دن وہ آنے والا تھا، اس دن میں اسے لينے ریلوے اسٹيشن گيا۔ گاڑی پہنچتے ہی میں نے ”تهرڈ  کلاس“ اور ”انٹر“ والے ڈبے ديکهنا شروع کیے۔ خلافِ توقّع وہ ایک ”سیکنڈ کلاس“ کے ڈبے سے سُوٹ کيس ليے اُترا۔
ميں نے دیکھا کہ وہ وہی رفيق تها۔۔۔ اسکول والا رفيق۔۔۔ جس کے گال بَھرے ہوئے تھے اور بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے۔ اور ايک لٹ اس کی پيشانی پر لٹک رہی تھی۔ اور وہ ایک قیمتی سوٹ میں ملبُوس تها۔ اس نے ريل گاڑی سے اترتے ہی اپنا سُوٹ کيس قلّی کے حوالے کیا، اور آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔
گهر لانے کے بعد میں نے اسے کہا: ”تمہاری حالت اب سُدهر گئی ہے۔ شايد اب دنيا تمہارے فن کی قدر کرنے لگی ہے۔“
”ہاں۔۔۔“
اس نے ایک بے رونق مسکراہٹ کے ساتھ جواب ديا۔
”کيونکہ اب میں نے بھی دنيا کے ’جذبات‘ کی قدر کرنا شروع کر دی ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنا سوٹ کيس کهولا اور اپنی ايک پينٹنگ نکال کر ٹھنڈا سانس لے کر، اس پر حسرت بھری نگاہ ڈالی۔ اور مجھے دیکھنے کو دی۔
میں نے اس سے پينٹنگ لی اور دیکھی۔۔۔ یہ وہی ”مارئی“ والی تصوير تهی۔ وہی پیٹنگ۔۔۔ جو اس نے مجھے گزشتہ برس دکهائی تهی۔ فرق بس اتنا تها کہ اس کے تار تار پَھٹے کپڑوں سے اس کے بدن کا ستر نظر آ رہا تھا۔ اس کی ”ردا“ اُتر گئی تھی۔
(1956ء میں لکها افسانہ)
[ اتوار، 8 شوال 1441ھ ــ 31 مئی 2020ء ]

No comments:

Post a Comment