Sunday, June 14, 2020

دھرتی سے نکالے گئے. - علی بابا - مرتضے'ناز


دھرتی سے نکالے گئے...
(ڌرتيءَ ڌڪاڻا)
تحریر؛  علی بابا
سندھی سے ترجمہ... مرتضے'ناز
وہ جاپان ایئر لائین کے جہاز میں سفر کر رہا تھا. ایک لمبی دوڑ اور بڑی آواز کے بعد جب جہاز نے ایران کی دھرتی چھوڑی تو، اس نے اپنے اندر عجیب احساسات ابھرتے ہوئے محسوس کیئے. اس نے سوچا کہ تین گھنٹے بعد میرا جہاز پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اترے گا. کراچی، میری امی کے سپنوں کا شہر. میری ماں کی پیدا ہونے کا شہر، جس کو وہ پیار میں ہمیشہ اس کے قدیم نام کلاچی سے یاد کرتی رہتی ہے. لیکن میں اس شہر کو دیکھنے کے لئے بیچین کیوں ہوں؟ اس شہر کو دیکھنے کے لئے میرے اندر اتنی بیقراری کیوں ہے؟ اتنی آرزو کیوں؟ میں اس شہر کی سیر کیوں کرنا چاہتا ہوں؟ میں کلفٹن کیوں دیکھنا چاہتا ہوں؟ کیوں چاہتا ہوں کہ میٹرو پول کے خوبصورت لائونج میں بیٹھ کر شوق سے پلہ (مچھلی) کھائوں. منگھوپیر کے مقام پر جاکر مگر مچھ دیکھوں. جا کر مورڑو میر بحر کا مقبرہ دیکھوں. کسی بوک اسٹور سے 'شاھ جو رسالو' خرید کرکے کسی پارک میں بیٹھ کر پڑھوں. اس شہر سے تو میری کوئی چھوٹی سی یاد بھی وابستہ نہیں ہے. بٹوارے کے وقت جب میری ماں کو جلاوطن کیا گیا تھا، تب میں فقط چار مہینوں کا تھا، وہ بھی اپنی ماں کی کوکھ میں. میں نے تو اس شہر کی ہوا میں سانس بھی نہیں لی، جو پیدائش کے وقت ایک بچے کے پھیپھڑے پہلے بار رو کر کھینچنے لگتے ہیں، تو اس کی سانسوں کا سلسلہ چلنے لگتا  ہے. میں نے تو زندگی کی وہ پہلی سانسیں آگرے کی ایک کھولی میں لیں تھیں، پھر اس شہر کو دیکھنے کے لئے میرے اندر اتنی بیچینی اور بیقراری کیوں ہے؟ کیا فقط اس لئے کہ کراچی میری ماں کا وطن ہے. میری امی کی جنم بھومی ہے. کیا فقط اس لئے کہ میں نے چھوٹی عمر میں ہی اپنی ماں سے اس کے بارے میں بہت سی باتیں سنیں تھیں؟ کلاچ کے سمندر کی، منھوڑے کی، کلفٹن کی، زولاجی گارڈن کی، میوزم کی، منگھو پیر کی، مورڑو میر بحر کی، جس نے کلاچ کے سمندر میں دنیا کی سب سے بڑی وھیل مچھلی ماری تھی، جس کی ریڑھ کی ہڈی آج تک میوزم میں رکھی ہوئی ہے. امی کہتی تھی کہ ہرکیولیس ہو یا جولیئس سیزر ہو یا کوئی اور رستم، دنیا کا کوئی بھی پہلوان مورڑو کا ثانی نہیں ہوسکتا. مورڑو ہمت اور مردانگی کا سمبل ہے. امی کہتی تھی سندھو دریا کے مگر مچھ دنیا کے سب سے بڑے مگرمچھ ہیں. تم منگھو پیر کے مقام پر جا کر دیکھوگے، تو تمہیں ایک ایک مگرمچھ پندرہ فوٹ سے بھی لمبا نظر آئے گا. دیکھتے ہی دیکھتے آدمی کو دہشت سی ہونے لگتی ہے. امی کہتی تھی کراچی کا سمندر دنیا کا سب سے نیلا اور نمکین سمندر ہے. وہاں ہر روز بےدریخ، آوارہ ہوائیں چلتی رہتی ہیں. وہاں تم ہوا کے جھونکوں کو چلتے پھرتے محسوس کروگے. اوپر دیکھوگے تو ہوا کا جھؤنکا کسی چنچل لڑکی کی طرح ساڑھی میں لپٹا ہوئا دوڑتا ہوئا محسوس ہوگا. کراچی کی کیا بات کریں، وہ اپنے وطن کے درختوں کو بھی یاد کرکے رو پڑتی تھیں. اس کا بس چلے تو پر نکال کر اڑ کر اپنے وطن چلی جائے. کتنی منت کرنے کی کیفیت میں کہتی تھی کہ،..... رام...! یہ سیاستدان تو ہمیشہ سے لڑتے اور صلح کرتے رہتے ہیں. کبھی تو پاسپورٹ کھلیں گے. جب تم بڑے ہوجائو تو مجھے اپنے وطن کے درخت ضرور دکھا کر آنا. میں سندھو ساگر کی پوجا کروں گی. موھن جو ڈڑو کی دھرتی کو سجدے کروں گی. شاھ لطیف کی مزار پر چادر چڑھائوں گی. نہیں تو میری آتما گنگا کی گودی پر ہمیشہ نراتمائوں کی طرح بھٹکتی رہے گی، تڑپتی رہے گی. میں ایک بار لوٹ کر اپنے وطن جانا چاہتی ہوں، فقط ایک بار" پھر اس کا گلہ گھٹ سا جاتا تھا. آنکھوں پر ہاتھ دے کر دوڑتی ہوئی، اپنے کمرے کی جانب چلی جاتی تھی. اور اندر سے کنڈھی لگا کر گھٹنوں میں سر دے کر روتی رہتی تھی. کافی دیر کے بعد جب وہ دروازا کھولتی تھی تو  ایک بہت بوڑھی اور ضعیف عورت محسوس ہونے لگتی تھی، جو رو رو کر آنکھوں کی روشنی کھو بیٹھی ہو." اونھ، دقیانوس عورت تیئیس برس بیت گئے وہ وطن نہیں بھلا سکی. آج تک وطن نہیں بھلا پائی. " آج تک اس کی آنکھوں کا پانی خشک نہیں ہو سکا. اس نے بڑی بیقراری سے سیٹ پر کروٹ بدلی. اس کو پھر کچھ یاد آنے لگا. جب وہ ماں کو نئی کار میں بٹھا کر گھمانے لے گیا تھا، تو بمبئی سمندر کے کنارے پر Gate Way Of India آکر کتنا خوش ہوئی تھی. ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے اس نے کتنی حسرت سے کہا تھا: الا... پتہ نہیں وہ مبارک دن کب آئے گا، جب میں اس طرح کلفٹن سے اپنے سندھو ساگر کا دیدار کر سکوں گی! "تب وہ ماں کو تنگ کرتے ہوئے بولا تھا:" امی تم کراچی کے سمندر کو ہمیشہ سندھو ساگر پکارتی ہو، لیکن تاریخ اور جاگرافی میں تو اس نام کا کوئی سمندر نہیں ہے. کراچی کے سمندر کو تو بحرِ عرب Arabian Seaکہتے ہیں.


" واہ - بحرِ عرب کيوں! " بحر عرب تو ہوئا عربوں کی فتح کے بعد، کیا ڈاہر کے وقت میں بھی اس کو کوئی بحر عرب کہتا تھا کیا؟" لیکن آئی، سندھ پر تو ابھی بھی مسلمانوں کا قبضہ ہے. وہ سب آپ کو عربوں کی اولاد کہلاتے ہیں. پاکستان میں ان دنوں ون یونٹ ہے. اب دھرتی پر سندھ کے نام سے کوئی بھی ملک نہیں ہے. تم تو ایسے ہی سندھ سندھ کرکے دل کو جھوٹی تسلیاں دیتی رہتی ہو. سندھ کہیں بھی نہیں ہے."
اس کی ماں کو جیسے بچھو ڈس گیا ہو. زخمی نظر سے اس کی طرف دیکھ کر بولی تھی." رام- مجھے تو پتہ نہیں چلتا کہ آپ لوگوں کو کالجو‍ں اور یونیورسٹیوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ تمہاری معلومات کتنی  محدود ہے! سنو رام، مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے. بچپن میں جب میں مشکل سے سندھی کی چوتھی جماعت میں تھی. تب تمہارے نانا جان مرحوم مجھے لکی تیرتھ کا میلا دکھانے لے گیا تھا. وہاں بگے ٹھوڑھے پہاڑ کی ایک چٹان پر میں نے ایک کیل سے اپنا نام لکھا تھا: "ساوتری ھنگورانی، طالب علم، جماعت چوتھی سندھی." اس بات کو آج پتہ نہیں کتنے برس گذر گئے ہیں.  میں یقین سے کہتی ہوں کہ وقت کے بے رحم بہاؤ نے بگے ٹھوڑھے کی اس چٹان سے میرا نام مٹا دیا ہوگا. لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟ بگہ ٹھوڑہ تو اپنی جگہ پر مضبوط کھڑا ہے. رام، سندھ ایک قدیم ملک ہے. اس کی بنیادیں بگے ٹھوڑھے، سورجانی،کانبھو، پب، پاراشر، کھیرتھر، کارونجھر، چوہڑ اور ھالار پر رکھی ہوئی ہیں. سندھ کسی لاوارث ساوتری کا نام نہیں ہے. جو کوئی آکر لکڑی کی طرح توڑ دے. اور لکیریں لگا کر اس کو مٹا دے. کوئی ہے مائی کا لال جو بگے ٹھوڑھے کو اپنی جگہ سے ہٹا سکے. کوئی ہے جو کھیر تھر، ھالار اور کارونجھر کو اپنی جگہ سے مٹا سکے. کوئی ہے جو پاراشر اور سورجانی کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک سکے؟ اور بھی بہت سے سکندر آتے رہیں گے، لیکن دریاھ بادشاھ بہتا رہے گا. سندھ کو کمزور ساوتری سمجھنے والے لوگ بھٹکے ہوئے ہیں. سندھ دنیا کا سب سے قدیم ترین ملک ہے. آج نہیں تو ہزار سال بعد بھی سندھ کروٹ لے کر سجاگ ہوگا." اور پھر جیسے کسی نے اس کی ماں کا گلہ دبا دیا ہو. وہ آنکھوں پر ہاتھ دے کر دھاڑ دھاڑ کر رونے لگی تھی. دل اتنا بھاری، من اتنا بھاری، جیسے وہ چھلی ہوگیا ہو. تب وہ چھوٹے سے بچوں کی طرح ماں کے ساتھ لپٹ گیا تھا."میری پیاری امی جان، مجھے معاف کر دو، مجھے کیا پتہ کہ آپ کو اتنا دکھ ہوگا. میں کیا جانوں کہ وطن کیا ہوتا ہے؟ میں تو اس جذبے سے انجان ہوں، خالی ہوں.
"ہاں، تمہیں کیا پتہ کہ وطن کیا ہوتا ہے؟ تم تو اس وقت میری کوکھ میں تھا، تم نے تو وہاں کی ہوا میں سانس بھی نہیں لی. تمہارے پاس تو کسی درخت کی ٹہنی کی یاد بھی نہیں ہے. تمہں کیا پتہ کہ شکاری کے پھندے میں پھنسا ہوئا پرندہ کیوں تڑپتا ہے؟ تمہیں کسی ماری کے پنجرے کا کیا پتہ؟ ہٹ جاؤ، مجھ سے دور ہوجاؤ. اس کی ماں زور سے اس کی باہیں چھوڑ کر، روتی اور دوڑتی ہوئی، کار کی پچھلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی تھی.اس دن بمبئی سے واپسی پر پورے راستے میں اس کی ماں ایک حرف بھی نہیں بولی تھی. اس دن اس نے اپنے اور اپنی ماں کے درمیان بہت فاصلے محسوس کیے تھے. کتنی دوری، اتنی کہ جیسے وہ جمنا کے ایک کنارے پر اور اس کی ماں سندھو کے دوسرے کنارے پر کھڑی ہو. زندگی میں پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا کہ وطن کا جذبہ زندگی کے باقی سب جذبوں سے عظیم تر ہوتا ہے. وطن کے آگے باقی سب جذبے کٹ جاتے ہیں. چرخے پر چلنے والے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں. لیکن میں نہیں جانتا کہ وطن کیا ہوتا ہے؟ میں اس جذبے سے انجان ہوں. اسی گھڑے کی طرح جو کمہار کی بٹھی میں پکنے سے کچا رہ گیا ہو، پکنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بیکار سا بن گیا ہو. میرا من بھی اسی طرح اندر سےٹوٹا ہوئا اور انجان سا رہ گیا ہے.
 "Are you feeling any difficulty?"
اس نے چؤنکتے ہوئے اپنے اوپر سے ٹرے اٹھاتی جھکی ہوئی جاپانی ھوسٹیس نے اس کی جانب دیکھا.
"No, I am only thinking about my country."
جاپانی ھوسٹیس کا چہرا مسکرانے لگا. وہ بولی:
"ہاں، وطن کا جذبہ دنیا کا سب سے عظیم جذبہ ہے. میں جب بھی ملک ملک دیکھ کر اپنے وطن کو لوٹتی ہوں، تو اپنے آپ کو اتنا خوش محسوس کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ اگر میرے پاس پر ہوں تو میں اڑنے لگوں. وطن وطن ہے."
وہ مسکراہٹیں بکھیرتی ہوئی آگے بڑھ گئی. وہ جہاز کی آخری حد تک اس کو دیکھتا رہا. وہ سوچنے لگا، یہ عورت کتنی خوش نصیب ہے. بلکل اس پرندے کی طرح جو درخت کہ ٹہنی ٹہنی سے ہوتا ہوئا بالآخر آرام کرنے کے لئے اپنے گھونسلے میں لوٹ آ تا ہے. میری ماں بھی کتنی خوش نصیب ہے. اس کا بھی کوئی وطن ہے. اس کے  خوابوں کا کوئی دریا ہے، جس کو یاد کرکے وہ آنسو بہاتی رہتی ہے. اونچے اونچے پہاڑوں پر اس کے نام لکھے ہوئے ہیں. اس کے سپنوں کا سمندر دنیا کا سب سے گہرا نیلا سمندر ہے. اس کے وطن میں ہوا کے جھونکے اپسرائوں کی طرح ناچتے اور دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں. اس کے ملک کا شاعر دنیا کے سامنے سارے شعراء سے بڑا شاعر ہے، جس کی کتاب رات کو سینے پر رکھ کر وہ سپنو کے سمندر میں تیرنے لگتی ہے. اس کا خاص سُر اور سنگیت ہے، جو پوری دنیا کے سنگیت سے منفرد ہے. اس کے وطن کے لوگ ساری دنیا کے لوگوں سے خوبصورت، حسین اور مخلص ہیں. دنیا میں آدمی کا کوئی نہ کوئی وطن ہوتا ہے. لوگ اپنے وطن سے پیار کرتے ہیں. لوگ اپنے وطن کے گیت گاتے ہیں. لوگوں کو اپنے وطن کے مگرمچھ بھی اچھے لگتے ہیں. ایک میں ہی دھرتی سے نکالا گیا ہوں، جو اس جذبے سے انجان ہوں. فقط میں ہی ہوں جس کا کوئی وطن نہیں ہے.  ٹھہرنے کو کوئی مکان نہیں ہے. کوئی دھرتی، کوئی شہر، کوئی سُر سنگیت نہیں ہے. میں نہیں جانتا کہ کوہیاری، بھاگیری، رانا اور کیرولز کے سُروں میں سے مدھر سر کون سا ہے!؟ مجھے دنیا کے سارے سمندر اور دریا ایک جیسے لگتے ہیں. میں ان باتوں سے بلکل ناواقف اور انجان ہوں. میرے من میں گھنہ اندھیرا ہے. اس موٹرسائیکل والے کھلونے کی طرح، جس کو بچے چابی بھر کر فرش پر چھوڑ دیتے ہیں، جو بے مقصد فرش پر دوڑتا رہتا ہے. میں اس کھلونے کی طرح زندگی کے حسن، خوبصورتی، رس اور خوشبو سے محروم ہوں. مجھے تو ہر گھڑی ایسے لگتا ہے، جیسے کسی نے میری مرضی کے خلاف زبردستی میرے سینے میں چابی بھر دی ہو. دھک دھک دھک، میں چلتا ہوں بے مقصد، پتہ نہیں کب اور کہاں وہ چابی ختم ہوجائے گی اور میں ہمیشہ کے لیے رک جاؤنگا. لیکن میں یہ کہاں جا رہا ہوں! کیوں جا رہا ہوں، کس لئے؟ مورکھ من مجھے اڑا کر کہاں لے جا رہا ہے؟ وہ دھرتی کا کون سا ٹکڑہ ہے، جہاں مجھے سکون ملے گا، میں ہوائوں کو رقص کرتا ہوئا محسوس کروں گا. میں تو وہ رام ہوں، جس کے بنواس کی کوئی مدت نہیں، کوئی انت، کوئی آخر نہیں ہے، جس کی کوئی سیتا نہیں ہے. میں کہاں جا رہا ہوں؟ دھرتی کا کوئی بھی آدمی مجھے اپنے وطن میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے. میری اپنی ماں بھی نہیں. آئی کہتی ہے کہ،"خبردار کہ میرے وطن کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات بھی کہی. تھپھڑ سے منہ توڑ دونگی." نانا مرحوم کہتے تھے کہ، "ابو! میرے وطن کی بات ہی مت پوچھو، بہت دکھ ہوتا ہے، خاموشی ہی بہتر ہے..." اور نانی مرحومہ جو اپنے آپ کو بڑی وشنو (گوشت نہ کھانے والی) کہلاتی تھی، عجیب انداز سے زبان کو چشکہ لگا کر کہتی تھیں،"ارے چل رے پیٹو، میرے وطن کا فقط پلہ کھا کر دیکھتا تو ہندوستان کے سات طعام بھول جاتا. دیکھا کیا ہے! " یاد نہیں آتا کی آئی نے کبھی غلطی سے بھی اپنا وطن کہا ہو، ہمیشہ کہتی تھیں، "میرا وطن" تو پھر میرا وطن کہاں ہے؟ تو اگر میں انگلینڈ میں جنم لیتا تو کیا انگریز بن جاتا کیا؟ اگر یہ درست ہے تو پھر ایک ہندو ماں کی کوکھ سے ہندوستان میں جنم لے کر بھی میں ایک ہندوستانی کیوں نہیں بن سکا؟ آج تک میں کیوں محسوس نہیں کر پایا کہ بمبئی کا سمندر دنیا کا سب سے نیلا گہرا سمندر ہے؟ میں ہوائوں کو رقص کرتے ہوئے کیوں نہیں ديکھ سکا؟ میں نے دنیا کے بڑے بڑے شعراء کا شعر پڑھا ہے، مجھے میراں اور کالیداس اچھے لگتے ہیں، لیکن آج تک میں یہ دعویٰ کیوں نہیں کر سکا کہ میراں یا کالیداس دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں؟ گنگا اور جمنا ھندوستان کی سب سے پویتر اور مقدس ندیاں ہیں، لیکں میں ان کی خوبصورتی میں یہ بات محسوس کیوں نہیں کر سکا، جو میری نانی مرحومہ کو ہمیشہ سندھو ندی میں محسوس ہوتی تھی؟ ھندوستان میں بہت سے رنگا رنگ اور خوبصورت پہاڑ ہیں.تاج محل ہے، جامع مسجد ہے، قطب مینار ہے، ایلوا اور اجنتا کے مندر اور غاریں ہیں، سومناتھ سے بھی قدیم بڑے بڑے مندر ہیں، لوگ یاد رہنے کے لئے ان پر اپنا نام لکھتے ہیں.
میری نانی وفات کے وقت نیند میں کس طرح تو مسکرا رہی تھی. جیسے مرنے کے بعد بھی اس کے منہ میں پلے کا سواد باقی تھا. لیکن میں آج تک کسی بھی کھانے کی چیز میں سے ایسا سواد حاصل کیوں نہیں کر پایا؟ آخر وہ سب باتیں جو ایک عام آدمی اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے، وہ میں کیوں نہیں محسوس کر سکا؟ کیوں ہوں زندگی کی اس خوبصورتی، خوشبو، رس و رنگ اور سواد سے اتنا محروم اور انجان!؟
لیکن آج میرے من میں اتنی بیچینی کیوں ہے؟ کتنی تکلیف محسوس کر رہا ہوں.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میں نے جان بوجھ کر ایسے جہاز کے ساتھ سفر کیا ہے، جو کراچی سے ہوتا ہوئا ھندستان جائے. اور اس لئے مجھے تین دن انتظار کرنا پڑا تھا. دگنے پیسے دینے پڑے تھے. یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ کراچی ایئرپورٹ پر ہمارا جہاز فقط چالیس یا پینتالیس منٹ کے لئے رکے گا. میں وہاں ایئرپورٹ ٹرانزٹ لائونج سے باہر کہیں بھی نہیں جا سکوں گا. میں کلفٹن، مورڑو میربحر کا مقبرہ، منگھوپیر اور میوزم نہیں دیکھ سکوں گا. میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ٹرانزٹ میں پلہ(مچھلی) ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. پلہ تو ایک موسمی مچھلی ہے. اور یہ بھی تو سنا ہے کہ سندھو دریا سوکھا ہوئا ہے. لیکن ہو سکتا ہے کہ کراچی ائرپورٹ پر اترتے ہوئے ہمارے جہاز کو حادثہ پیش آ جائے. میں سخت زخمی ہوجاؤں، اور مجھے کچھ دنوں کے لئے کراچی میں رہنے دیا جائے. لیکن کیا وہ سب باتیں اس طرح محسوس کر سکوں گا، جس طرح میری ماں نے کی تھیں؟ ہو سکتا ہے کہ میں وہ ذائقہ، خوبصورتی، رس اور رنگ محسوس نہ کر سکوں. ہانگ کانگ میں ایک مرتبہ چینی لڑکی کے ساتھ کھیکھڑہ (مچھلی) کا سوپ پیتے ہویے میرا دل کتنا  خراب ہوئا تھا. میں نے پلہ کبھی بھی نہیں کھایا. ہوسکتا ہے کہ پلہ کھاتے ہوئے، مجھے اچھا نہ لگے، اگر ایسے ہوئا تو پھر کتنی مایوسی ہوگی! لیکن میں یہ سب کچھ کیوں سوچ رہا ہوں؟ میرا ذھن لٹو کی طرح ایک ہی محور پر کیوں ٹھہر گیا ہے؟ اچانک میری دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جہاز کو حادثہ پیش آئے؟ اس نے پھر اپنے من میں عجیب سی گھٹن محسوس کی. پھر جب مائکروفون سے جہاز کے کراچی ایئرپورٹ پر اترنے کی اطلاع ملی، تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں. وہ کسی انجانے سے خوف سے گھبرایا ہوا تھا. اس کو ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کا من کسی پاتال میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے. کسی گہرے بے انت پاتال میں. جہاز سلامتی سے کراچی کے ایئرپورٹ پر اتر چکا تھا. ایک ایک ہو کر سب مسافر جہاز سے نیچے اترنے لگے تھے. وہ کچھ دیر کے لئے پریشان بیٹھا تھا. "اتروں نہ اتروں- کیا میں وہ بھی تکلیف جھیل پاؤنگا؟ ہو سکتا ہے کہ باہر ہوا بندا ہو. بھلا چالیس یا پینتالیس منٹ کے لئے  ٹرانزٹ لاؤنج میں بیٹھنے سے مجھے کیا ملے گا؟ اف، کتنی تکلیف محسوس کر رہا ہوں. شاید مجھے یہاں نہیں آنا چاہئے تھا. میں نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو سزا دی ہے. آخر اس دھرتی سے میرا کیا تعلق؟ لیکن میں اس طرح پریشان کیوں بیٹھا ہوں؟ کیا میرے لئے یہ بھتر نہیں کہ سندھو ندی کا اک آدھا گلاس پانی پی کر اپنے من کو ٹھنڈا کر لوں. میں اپنے اندر کتنی یاس محسوس کر رہا ہوں. جیسے میں نے مدتوں سے پانی نہیں پی یا ہو. میرے خیال میں میرے لئے یہ بہتر ہے کہ وقت گذارنے کے لئے میں بک اسٹال سے کوئی کتاب خرید کر کسی اکیلے کونے میں جا کر پڑھوں." وہ پریشان من کے ساتھ مسافرو‍ں کے پیچھے جہاز کے دروازے کی جانب بڑھا. دروازے پر آتے ہی اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے بالوں کو بکھیرتا ہوئا، اوپر سے گذر گیا. اس نے  گھبرا کر پیچھے دیکھا. اس کا جسم کانپنے لگا تھا. اس کو ایسے محسوس ہوئا جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے لال ہری کرنیں دوڑ رہی ہوں. اس نے محسوس کیا جیسے اس کہ پھیپھڑے رک کر انہوں نے اچانک تیزی سے چلنا شروع کیا ہو. اس کے دل نے نومولود بچے کی طرح زرو زور سے رونا چاہا. اس نے سنبھلتے ہوئے اپنی پیشانی اور کلائی کو چھوکر دیکھا.
"اوہ، مجھے تو بخار ہے. میں تو جل رہا ہوں. میرے پاؤں بھی کتنے بھاری ہوتے جا رہے ہیں، جیسے میرے پاؤں ہمیشہ کے لئے دھرتی میں دھنس جانا چاہتے ہیں."وہ کچھ دیر کے لئے سنسان نظروں سے، ایئرپورٹ کی بلڈنگ کی گیلری میں نیلے آسمان کے نیچے پھہلے ہوئے وسیع کشادے شہر کی عمارات کی طرف دیکھتا رہا. اس کو ایسے محسوس ہوا، جیسے مدتوں سے کسی جلاوطن آدمی کی طرح بھٹکتا رہا ہے. بڑی مشکل سے  بھاری قدم اٹھا کر وہ ٹرانزٹ لاؤنج میں آیا. دیوار پر موھن جو دڑو پر چوڑیوں والی پروہت عورت، سرندہ بجانے والے ایک سندھی پینار اور اونٹوں والوں کی بڑی تصویریں دیکھ کر وہ کچھ دیر کھڑا رہا. اور پھر ایک خالی کونے میں، ایک کوچ ہر بیٹھ کر، بنا سوچے سمجھے مینیو پڑھنے لگا.
"Yes Sir"
"میں کچھ بھی نہیں کھائو‍ں گا، مجھے صرف پانی چاہئے."
ویٹر پانی کا جگ اس کے آگے رکھ کر ادب سے گردن جھکا کر دوسری ٹیبل کی جانب چلا گیا. وہ کچھ دیر کے لئے پاگلوں کی طرح پانی کے گلاس کی طرف دیکھتا رہا. پھر ایک ہی سانس میں سارا گلاس پی گیا. اس کو  محسوس ہوا، جیسے اس کے اندر پیاس اور بھی بڑھ گئی ہو. اتنی زیادہ کہ اگر وہ سارا دریاہ بھی پی جائے تب بھی اس کے من کی پیاس مٹ نہ پائے. وہ گھبرا کر کوچ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا. اور بھاری بھاری قدم اٹھا کر بک اسٹال کی جانب بڑھ گیا.
"شاھ جو رسالو ہے؟"
"شاھ، کیا؟"
"شاھ عبداللطيف بھٹائی کا رسالہ؟"
"جی نہیں."
"بھوئنر بھرے آکاس؟"
"جی نہیں."
"روح رھان؟"
"جی نہیں."
"اور کوئی سندھی رسالہ یا اخبار؟"
"جی نہیں، ہمارے پاس سندھی کی کوئی کتاب نہیں ملتی."
"مگر ھندوستان میں تو یہ کتابیں مل جاتی ہیں. "
" ھندوستان میں ہوں گی، یہ پاکستان ہے، یہاں کو قومی زبان اردو ہے."
وہ مایوس نظروں سے بک اسٹال کو دیکھتا ہوئا، واپس آ کر اسی ہی کوچ پر بیٹھا. اس نے سوچا، "اف، کتنی تنہائی محسوس ہو رہی ہے. کون کہے گا کہ یہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کا ایئرپورٹ ہے. ان چار پانچ تصویروں کے علاوہ بھلا یہاں کون سی چیز ہے، جس کو سندھ کا سمجھا جائے. میری آنکھیں دھوکہ نہیں کھا سکتیں. میں تو مہروان ممتانی اور بھگوان کپور کے ایبسٹرکٹ خاکوں میں بھی سندھی رنگوں اور نقش و نگار کو پہچان لیتا ہوں. پھر اس زندھ جاگتی زندگی میں میری آنکھیں دھوکہ کس طرح کھا سکتی ہیں؟ توبہ، یہ چالیس پینتالیس منٹ گذارنا تو میرے لئے کتنا مشکل ہوگئے ہیں. میرے ساتھ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ میری عمر اس وقت پورے تیئیس سال ہے. لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ساڈھے تیئیس سال پہلے میں یہاں موجود تھا، ماں کی کوکھ میں. اس وقت میں نے اپنی دھرتی پر پاؤں بھی نہیں رکھے تھے. میرے پھیپھڑے بند تھے تو کیا ہوا، میری ماں تو سانس لے رہی تھی. پھر کیوں میری ماں کو جلاوطن کیا گیا؟ اس وقت اس نے کتنا عذاب جھیلا ہوگا. اور آج میں کتنی تکلیف محسوس کر رہا ہوں. کون کہے گا کہ میں وہ ہی آدمی ہوں اور ساڈھے تیئیس سال بعد واپس آیا ہوں. لیکن اتنی تکلیف تو میں نے پہلے کبھی بھی محسوس نہیں کی. کیا میں اپنے آپ کو قید محسوس نہیں کر رہا؟ میں کہاں پھنس گیا ہوں. میرے من میں کتنی گھٹن ہے. کیا ایسے تو نہیں کہ میں اپنے آپ کو سمجھ نہیں سکا یا میں اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہوں؟ میرا ذہن لٹو کی طرح ایک ہی محور پر کیوں گھوم رہا ہے؟ آدمی کو تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے. اگر ایسے ہوتا تو پھر لوگ پاگل کیوں ہوجاتے. یہ سب باتیں میرے ذھن میں گردش کر رہی ہیں. یہ مجھے پاگل بنانے کے لیے کافی نہیں ہیں کیا! کیا یہ حیرت جیسی بات نہیں ہے کہ جس ہوا میں مجھے تیئیس سال پہلے سانس لینی تھی، اس میں آج سانس لے رہا ہوں، جو پانی مجھے تیئیس سال پہلے پینا تھا وہ آج پی رہا ہوں. وہ بھی جاپان ایئر لائین کی مہربانی سے فقط چالیس یا پینتالیس منٹ کے لئے مجھے یہاں سانس لینے اور پانی پینے کی اجازت ملی ہے. میں اپنی مرضی سے یہاں ایک منٹ کے لئے بھی ٹھہر نہیں سکتا. اس نے پھر اپنے اندر گھٹن سا اندھیرا محسوس کیا. اس نے محسوس کیا کہ اس کا سینہ جل رہا ہے. وہ پانی کا ایک اور گلاس ایک ہی سانس میں پی گیا. اور خالی خالی نظروں سے دیواروں پر لٹکی ہوئی تصویروں کو دیکھتا رہا. خیال سے خیال آتا رہا. وہ پرشان بیٹھا رہا، اور پھر مائکروفون سے آواز گونجنے لگی:
Your attention please-
Attention please Japan airlines Flight 017 is ready to Fly.
Attention please Attention please.
جاپان ایئر لائین کے سب مسافر ایک ایک ہو کر Tranzit Lounge سے باہر جہاز کی جانب جانے لگے. اس کو لگا کہ جیسے کسی نے اس کی مرضی کے خلاف زور زور سے اس کے سینے میں چابی بھر دی ہو. وہ مسافروں کے پیچھے بھاری بھاری قدم اٹھا کر چلنے لگا.
آہ، یہ کیسی جلاوطنی ہے. کیسا بنواس ہے، میں کہاں جا رہا ہوں، مجھے سکون کہاں ملے گا؟ یہ چابی ختم کیوں نہیں ہوجاتی! میں ہمیشہ کے لئے رک کیوں نہیں جاتا؟ میرے پاؤں کتنے بھاری ہوگئے ہیں. میں دھرتی میں دھنس کیوں نہیں جاتا. دنیا میں ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی وطن ہوتا ہے، میں اپنے وطن کو کہاں ڈھونڈوں؟ کون سی دھرتی سے پیار کروں، کس سمندر کو پوجوں؟ میں کس کو قصوروار ٹھہراؤں، میرے ساتھ دھوکہ ہوئا ہے. میرے اعتماد کو توڑا گیا ہے. دغا کی گئی ہے. میں کسی کو بھی معاف نہیں کرونگا، اپنی ماں کو بھی نہیں. کاش کسی درخت کی کوئی ایک ٹہنی ہوتی جس کو میں اپنا سمجھتا، دھرتی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑہ ہوتا، جس پر میں اپنا نام لکھ سکتا. "رام بیٹا ساوتری ھنگورانی، جماعت تیسری."
ٹھیک اسی وقت، جب جہاز نے ایک لمبی دوڑ اور زوزاٹ سے کراچی کی دھرتی چھوڑی، تو اس کی آنکھوں کے اندرونی پاتال سے ایک آنسو طوفان مچاتا ہوا، اس کے گال سے گر کر کالے کوٹ کی کالر میں گم ہوگیا، اور وہ دونوں ھاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر سسکیوں میں رونے لگا.

(سندھی زبان کے عظیم افسانہ نگار، ناول نویس اور ڈرامہ نگار علی بابا کو خراجِ تحسين..)

No comments:

Post a Comment