Sunday, April 5, 2020

اندر میں ابليس - طارق عزيز شيخ


اندر میں ابليس
[ سندھی افسانے کا اردو ترجمہ ]
(تحرير: طارق عزيز شيخ | ترجمہ: یاسر قاضی)
وہ بہت معزز، شريف اور نيک مرد کے طور پر پہچانا جاتا تھا- مُحلّے کی مسجد کا پيش امام تھا- اس کے چہرے پر سیاہ ریش کے زیادہ تر بال  کچھ سفید بالوں کے ساتھ نمایاں تھے- سر پر سفید جالی والی ٹوپی پہنتا تھا، جبکہ اس کے کندھوں پر رومال رکھا ہوتا تھا- پڑوس کے لوگ دين کے تمام معاملات و مسائل اسی سے پوچھنے آیا کرتے تھے- جمعے کی نماز سے پہلے والی اس کی تقرير اکثر طویل ہُوا کرتی تھی، جس میں وہ اکثر جنّت اور دوزخ کے موضوع کا ذکر کيا کرتا تها- حاضرين اس کی تقرير سے بيحد متاثر ہوا کرتے تھے- اس کا کردار بظاہر ایک بزرگ اور معلم والا تها- ہر کوئی اس پر اندھا اعتماد کیا کرتا تھا-


بعد از نمازِ فجر جب مسجد، نمازیوں سے خالی ہو جایا کرتی تھی، تو تھوڑی ہی دير میں وه مسجد، مدرسے کی شکل اختيار کر جایا کرتی تھی- بچّے ناظره قرآن کی تعليم لینے آيا کرتے تھے- وہ بچّوں کے ساتھ انتہائی سنجيدگی سے پيش آيا کرتا تھا- ايسا لگتا تها جیسے اس کے روپ میں اچانک کوئی جلالی کردار ظاہر ہو جاتا تھا- بچّے چُونکہ بہت حساس ہُوا کرتے ہیں- ڈر کی صورت میں روتے بھی جلدی ہیں، تو چپ کرانے پر مسکرانے بھی جلدی لگ جاتے ہیں- امام صاحب کے مزاج اور انداز کو بھی بچّے اسی طرح سمجھ چکے تھے، جو اس کی آنکھ کے اشارے پر اُٹھتے بیٹھتے تھے- امام صاحب کی رہائش اسی مسجد سے مُتصل ایک چھوٹے سے حُجرے میں تھی جس کے ایک کونے میں اس کا چھوٹا سا باورچی خانہ بھی تھا، جہاں وہ ان ناظرہ پڑھنے والے بچّوں سے درس کے بعد اپنے برتن مَنجوايا کرتا تها-
ایک دن امام صاحب کے پاس بہت ہی تھوڑے بچّے قرآن پاک پڑھنے کے لیے آئے تھے- اس نے صبح صبح تيز بارش ہو جانے کی وجہ سے بچّوں کو چُھٹی دے دی تھی، مگر ایک باره تيره برس کی بچّی ”نسيم“ کو چھٹی نہیں دی- جب بچّی نے دیکھا کہ کوئی بھی بچّہ مسجد میں نہیں ہے، تو اس نے خود بھی امام صاحب سے جانے کی اجازت مانگی- امام صاحب نے اسے کہا:
”ٹھیک ہے--- روز کی طرح برتن دهو دو، پھر تیری چُھٹی!“
بچّی حُجرے کے کونے میں برتن دھونے کے لیے زمين پر پڑی ہوئی چھوٹی سی تپائی پر ابھی بیٹھی ہی تھی، کہ امام صاحب کی نيّت، معصوم بچّی پر خراب ہوئی- برستی بارش میں بھی تيزی آ گئی- بچّی کو يکايک ڈر نے گھیر لیا- جیسے اُس نے کسی انجانے خطرے کو اپنی طرف آتے دیکھ لیا تھا- اس کو اس سے پہلے کبھی بھی کسی سے اس قدر ڈر محسوس نہیں ہوا تھا، جیسے اس وقت اسے لگ رہا تھا- بچّی اچانک چونک کر تپائی سے اُٹھ کھڑی ہوئی تو اُس کی پیٹھ امام صاحب سے ٹکرائی، جو پتہ نہیں کب سے اُس کے سر پر آن کھڑا تھا اور اس کو ٹکٹکی باندهے دیکھ رہا تھا- بچّی کو مولوی کا لمس شديد اجنبی اور بُرا لگا- اس کو زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مرد کا وجود اس قدر بُرا، وحشت انگيز اور خوفناک لگا تها، ورنہ نسيم اپنے باپ سے دن میں کئی مرتبہ گلے لگ کر سکون حاصل کيا کرتی تھی اور اپنے ابُو کی بانہوں میں تو اسے ایسا لگتا تھا، جیسے وہ کسی محفوظ قلعے کے حصار میں آ گئی ہو-
امام نے بچّی کو ایک بازو سے پکڑ کر اپنے بستر کی طرف کهينچنے کی کوشش کی، تو بچّی اس سے گھر جانے کا پُر زور مطالبہ کرنے لگی- اس حيوان صفت آدمی نے بچّی کو آنکھ دکھاتے ہوئے چُپ چاپ اس کی بات ماننے کو کہا- بچّی ناں چاہتے ہوئے بھی ڈر کے مارے امام کے ساتھ اس کی چارپائی پر بیٹھی اور اس کے ہاتھ بدنيتی اور بے حیائی سے بچّی کے جسم پر پھرنے لگے- اس کے سخت اور مضبوط ہاتھ بچّی کے نازک اور ناتواں جسم اور ہڈیوں میں جیسے چُبھنے لگے- امام نے اس طفلِ نازک کو اپنی شہوت کا نشانہ بنانے کی نيّت سے اپنے نفس کی تعميل ابهی شروع ہی کرنا چاہی، تو بچّی نے اپنے آپ کو چُھڑانے اور اس جانور سے دُور ہونے کے لیے اپنی پوری طاقت لگائی، مگر اس زہريلے آدمی نے اسے ڈانٹ کر جھٹک دیا، اور پکڑ کر بچّی کو اپنی گود میں بٹھایا- وہ پوری طرح امام کی جکڑ میں قابو تھی- بچّی نے چیخ کر اس سے خود کو چُھڑانے کی اور زياده پُر زور کوششیں شروع کیں، جس پر اس درنده صفت انسان نے بچّی کے منہ پر ہاتھ رکھا اور ایک بار پھر اس کارِجبر میں کامیاب ہونے کی کوشش میں جُٹ گیا- اس نے اپنی طاقت کا پورا فائده اٹھاتے ہوئے، اپنے نفس کی بھوک کو مٹانا چاہا، بچّی مجبور تھی، اور کچھ نہیں کر پا رہی تھی، جیسے بھیڑیے کے منہ میں ہرن کے  بچّے کا شکار ہونے جا رہا تھا- نسيم نے کمزور ہونے کے باوجود اس بُرائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مزاحمت کی اور اس وحشی انسان کی انگلیوں کو اپنے دانتوں سے کاٹا- امام نے اپنا ہاتھ جھٹک کر بچّی کے دانتوں سے چُھڑایا تو بچّی نے پہلے سے زیادہ بلند آواز میں زور زور سے چیخنا اور چِلّانا شروع کر دیا- عين اُسی وقت باہر گلی میں کچھ لوگوں کی آواز سنائی دی، تو بچّی کی سانس میں سانس آئی- ایک لمحہ ہی گزرا تھا کہ اچانک امام کے خِلوت خانے کے دروازے پر دستک ہوئی- بچّی، مولوی کی گود سے ایکدم لپک کر اُچھلی، اور خود کو چھڑوا کر کمرے کے دروازے کی طرف دوڑی- یہ سب اس قدر يکايَک ہوا کہ امام بچّی کو پکڑ نہ سکا-
پیچھے امام اپنے کپڑے سنبھالتا دروازے تک پہنچا اور بچّی کو بازُو سے پکڑا تاکہ وہ دروازہ نہ کھول سکے، مگر بچّی اتنی دير میں دروازے کی کنڈی کهول چکی تھی اور باہر کھڑے لوگ امام کا اصل مکروہ چہرہ دیکھ چکے تھے-
بچّی بحفاظت اپنے گهر پہنچی اور امام، جُوتوں کی دُرگت کے بعد پوليس اسٹیشن-
(7 جولائی 2019ء کو ہری پور میں پیش آنے والے دل کو لرزا دینے والے واقعے کے پسمنظر میں لکھا ہوا افسانہ)
[ "عالمی يومِ ترجمہ" ـ 30 ستمبر کی مناسبت سے- ] 

(پير، 30 محرم 1441ھ ــ 30 ستمبر 2019ء)

No comments:

Post a Comment