Sunday, August 25, 2019

ندا - رسُول ميمن - یاسر قاضی


ندا
 سندھی افسانے کا اُردو ترجمہ
افسانہ نویس: رسُول ميمن | ترجمہ: یاسر قاضی
وہ کمرا ایک پُر اسرار حقیقت تھاـ کمرا کیا تھا! رُوحوں کا پنجرہ تھاـ اُوپر جالے لگے ہوئے تھےـ جن میں مکڑیاں مَری ہوئی تھیں، جن کو پَتنگے کھا رہے تھےـ بائیں جانب دیوار کو ٹیک لگا کر الماری ایسے کھڑی تھی، جيسے کوئی خاموشی اور افسوس کے مارے اپنی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے، اُس پلنگ کو دیکھ رہا ہو، جس پر کبھی اسکول ماسٹر نُور الامین نوروز اپنی بیوی کے ساتھ سویا رہتا تھاـ دیوار میں بلب کے ساتھ گھڑیال بھی وہی لٹک رہا تھا، جس کا پنڈوليم ڈھیلی شلوار کے اَزاربند کی طرح لٹک رہا تھا، اور گھڑی کے نیچے ماسٹر نُورالامین نوروز کی تصویر، جو پیتل کے مضبوط فریم میں کِیلوں کے ساتھ ایسے لگی ہوئی تھی، جیسے وہ دیوار کے پلاسٹر کے ساتھ مِل کر ایک ہو گئی ہوـ ماسٹر نُورالامين نوروز کی رنگوں سے عاری سفید کالی تصویر ایسے دکھتی تھی، جیسے واقعی وہ کسی مَرے ہوئے آدمی کی تصویر ہوـ سفيد پگڑی اور سیاہ کوٹ کے درمیان پَھنسا ہوا مُنہ، کبوتر کے گھونسلے جیسا تھا، جس میں دو سفید انڈے اور ٹُوٹے ہو ئے بال و پَر لٹک رہے تھےـ
باپ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نوّاب الدين نَوروز نے اپنی ماں تصویر کو ڈھونڈھنے کی بہت کوشش کی، جو سائز میں کم و بیش اس کے باپ کی اسی تصویر کے جتنی تھی- اس کے باپ نے وہ تصوير کہیں چُھپا رکھی تھی، کیونکہ اس کی نظر جب اس تصویر پہ پڑتی تھی، تو صدمے کے مارے اس کی آہ نکل جاتی تھی- اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس کی ماں اُس وقت دنیا میں موجود تمام خواتین سے زياده حسين تھی، کیونکہ ایسے گواہی نوّاب الدين نوروز کی آنکھیں دے رہی تھیں، جو تب بمشکل چھ برس کا تھا اور یہ ایسی عمر ہوتی ہے، جب دنیا میں موجود تمام لوگوں میں سے ماں جیسی کوئی اور ہستی نظر نہیں آتی- نوّاب الدين نوروز کی بدقسمتی تھی کہ اس نے اپنے بچپن میں ماں کو دہشتگردوں کے ہاتھوں مرتے دیکھاـ مارنے سے قبل جب وہ اس کی ماں کے ساتھ زبردستی کر رہے تھے، تو اس کے باپ نے اُنہیں التجا کی کہ "ایسے عمل سے پہلے مجھ پر رحم کھا کر مجھے گولی مار دوـ" مگر دہشتگردوں نے اس پر رحم نہیں کھایا اور اسے گولی نہیں ماری- اُس کے بعد اُس کا والد جیسے جیتے جی مر گیاـ یہ کراچی کے بدترین نسلی فسادات تھے، جن سے کھارادر میں رہنے والا یہ آغا خانی خاندان بهی متاثر ہواـ ان فسادوں میں نُورالدین نوروز کی چھ برس کی بیٹی "ندا" کہیں گم ہو گئی- اپنی بیوی کی دُکھدائک موت اور بیٹی کے بچھڑنے کے بعد نُور الامين نوروز بھی زیادہ وقت رہ نہ سکاـ ایک دن گھر سے نکلاـ رات تک واپس نہ آیاـ دُوسرا دن ہواـ اور پھر تیسرا روزـ بالآخر چوتھے دن اس کی لاش آئی- اس کا مُنہ مچھلیوں نے نوچ لیا تھا اور اس کی کهال کے نیچے مچھلیوں کے جيسے نفرت کے کانٹے نظر آ رہے تھےـ اس کی شناخت اس کے مسخ شده چہرے سے تو ہونے سے رہی! البتہ اُس کو پہنی ہوئی گھڑی سے ہوئی، جس کے کانٹے چل رہے تھےـ یہ گھڑی اب نواب الدّين نوروز کا سب سے بڑا اثاثہ تھی، جو الماری کے خانے میں ایک چهوٹی سی صندوقچی میں سرد لاش کی طرح رکھی ہوئی تھی- اور جب نواب الدّين نوروز وہ صندوقچی کھول کر اُسے ہاتھ میں اُٹھاتا تھا، تو اس آٹومیٹک گھڑی کو سُوئياں اس کے دل میں موجود نفرت اور بدلے کی آگ کی طرح بھڑک کر ایسے دوڑنے لگتی تھیں، جیسے جسم کا خون- جس میں سب نفرتیں، اذیّتیں اور الم، کسی سیلاب میں بہتی، چیختی، فریاد کرتی جاتی ہوں-
نواب الدّين نوروز جب دَھکے کھا کر جوان ہوا، تو پھر اس نے دَھکے دینا شروع کیےـ اس نے سب سے پہلا دَھکّا اپنے آپ کو دیا، جس میں اُس کا ضمیر نیچے گِر کر، سڑک پر چلنے والے ٹرالر کے نیچے آکر، ریزہ ریزہ ہو کر مر گیاـ اُس نے دُوسرا دھکّا ایک ایسی عورت کو ديا، جو اُسی پلنگ پر گری، جس پر کبھی اس کی ماں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھاـ


گھر کے اُس واحد کمرے میں اب کوئی بھی نہ تھا، سوائے سنّاٹے اور تاریکی کے- جس میں نواب الدّين نوروز کی سِسکیاں اُبھرتی تھیں- جیسے ساون کا سُورج- جس میں صرف روشنی کا احساس ہوتا ہے اور سُورج خود بادلوں کی اوٹ میں چُھپا رہتا ہےـ اس کی سسکیوں میں بارش کی بُوندوں کی آواز سمائی ہوئی تھی، اور اس کا انتقام ایسی آسمانی بجلی کی مانند تھا، جس کے پیچھے اس کا غم گرجتا سنائی دیتا تهاـ پلنگ کے سامنے لٹکتی اس کے ابّا کی تصویر میں کبھی کوئی جنبش پیدا نہیں ہوئی- اُس کمرے کی چھت سے لِپٹے جالے، جیسے نواب الدّين نوروز کے ذہن سے نکلے ریشے تھے، جن میں یادوں کی مکڑیاں اُلجھ کر وقت کی غذا بن گئی تھیں- وہ فلٹر والی سگریٹ پی کر سوچ نہیں پاتا تھاـ جب وہ فلٹر توڑتا تھا، تب ہی سوچنے کے قابل ہو پاتا تھاـ
ایک دن اُس نے اپنی لائی ہوئی اُنّیس سالہ خاتون کے قریب آنے کی کوشش کی، تو اُس کی حيرت کی کوئی انتہا نہ رہی- اُس کے جذبات اچانک سَرد ہو گئےـ اُس کی وجہ اس کے پلنگ کے سامنے ٹنگی اُس کے ابّا کی وہی فوٹو تھی- اس نے جب اس نؤخيز عورت کو چُھونے کی کوشش کی، تو اُسے لگا کہ اس کو پیچھے سے کسی نے آواز دی ہےـ اُس نے مُڑ کے دیکھا تو اُسے اپنے باپ کی تصویر میں جُنبش محسوس ہوئی- اُس کو لگا جیسے اس کا باپ اس تصوير میں زندہ ہو گیا ہوـ یہ پہلی بار تھا کہ اس کے سامنے اس قسم کا عجيب منظر رُونما ہو رہا تهاـ اُس کو تصویر سے باپ کی نظریں اُسے گھورتے ہُوئے نظر آئیں، جن میں ناراضی کا واضح اظہار تھاـ اُس کو محسوس ہوا کہ جیسے اس تصویر کا فریم ہِل گیا ہو، جبکہ وہ فریم دیوار میں بڑی مضبوطی کے ساتھ لگا ہوا تھاـ اُس کو لگا کہ جیسے کمرے میں کوئی رو رہا ہوـ وہ اُٹھا اور اس نے غور سے دیکھاـ اُس کو لگا، جیسے اس فوٹو کی آنکھوں سے اَشک رواں ہوں- اس نے تصویر میں اپنے باپ کی آنکھوں کو چُھو کر دیکھاـ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں- وه ششدر ہو کے رہ گيا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پُرانی تصویر میں سے اس طرح آنسو بہہ رہے ہوں-
وہ واپس پَلنگ پر لوٹا اور اس نے دیکھا کہ اُس عورت کے رخسار مزيد روشن تھےـ وہ بھی اشکوں کی نمی میں چمک رہے تھےـ اُس نے سوچا کہ سرِ شام کا پہر ہےـ شفق کی روشنی میں شاید شبنم اپنی دَمک دکھا رہی ہے اور جمال اپنے عرُوج پر ہےـ ساحلِ سمندر بھی قریب ہےـ ہر چیز پر نمی کا اثر ہے اور ہر چیز اس ساحلی ہوا سے گیلی ہو گئی ہےـ نواب الدّين نوروز اپنے جنسی جذبات کو یکجا کر کے، اس عورت کے قریب آیا، تو اس کو احساس ہوا کہ پیچھے سے اُس کے والد کی آنکھیں اُسے گُهور رہی ہیں-
وہ دوبارہ اُس دیوار میں لگے اس فریم کے قریب آیا اور اپنے ہاتھوں سے اُس کو نوچنا شروع کیاـ فریم مضبوطی سے لگا ہوا تھا اور اس دیوار کے پلاسٹر میں جَما ہوا تھاـ وہ ايک لمحے کے اندر وحشی بن گیاـ اس نے سوچا کہ وہ اس فریم کو کھینچ کر، دیوار سے اُتار دے اور اُسے الٹا کر دے، جیسے اس کے ابّا کی نظر اس پر نہ پڑ سکےـ بالآخر اس نے اپنا پُورا زور لگا کر فریم کو کِیلوں سمیت کھینچ کر دیوار سے اُتار دیاـ اس نے جب فریم کو الٹا کر کے دیکھا تو اس سے کم و بیش ایک بہت بڑی چیخ نکل گئی- اُس فریم کے پیچھے اُس کی ماں کی تصویر تھی، جو اس کے ابّا نے وہاں اپنی تصویر کے پیچھے چُھپا دی تھی- اپنی ماں کی تصوير دیکھ کر يکايک اس کی آنکھوں میں اشک اُمڈ آئےـ اس نے مُڑ کر پلنگ پہ بیٹھی عورت کے چہرے کی طرف دیکھا، جس کی شکل ہُوبہو اس کی ماں کے جیسی تھی- فوٹو میں اس کی ماں کا چہرا اُتنا ہی خوبصورت اور جوان تھا، جیسا اس پلنگ پر بیٹھی اُس خاتُون کاـ وہ زیادہ دیکھ نہ سکاـ دیوار میں فریم کو اُسی، اپنے باپ کی تصویر والی سائیڈ پہ لٹکا کر واپس پلٹا، تو اُس کو اپنے باپ کی نظروں سے خوف محسوس ہواـ وہ کانپتا کپکپاتا پلنگ پر آیا اور وہاں بیٹھی عورت کے پیچھے چُھپ کر ویسے ہی اَشک بہانے لگا، جیسے وہ کبھی شرم کے مارے اپنی ماں کے پیچھے چُھپا کرتا تهاـ

(جمعرات، ١٣ ذی الحجہ ١٤٤٠ھ ــ ۱۵ اگست ۲۰۱۹ء)

No comments:

Post a Comment