Sunday, August 25, 2019

راهِ نجات


راهِ نجات
سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ
تحرير: نجم عبّاسی | ترجمہ: یاسر قاضی
وہ خيالوں کے طُوفان سے پيچها نہیں چُھڑا پا رہا تھا- اس نے اُٹھ کر ریڈيو لگایا- اور اُس کی آواز بلند کر دی- مگر اس کے کان، باہر کی آواز کی جانب مُتوجّہ نہیں ہو پائے- وہ نہانی تذبذُب کی سرگوشیاں سن رہے تھے-
وہ اخبار اُٹھا کر تازہ نرخ نامہ پڑھنے لگا، پر اُس کی نظریں اخبار پر ہونے کے باوجُود بھی، دُور--- بہت دُور--- بہت دُور کا نظارہ دیکھ رہی تھیں- جہاں اس کے ماضی کی سینکڑوں داستانیں پھیلی ہوئی تھیں-
بے آرامی نے اُسے پلنگ پر سونے نہ دیا، اور وه اُٹھ کر، کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا اور باہر کی طرف دیکھنے لگا- سامنے اپنے دوست کا بنگلہ دیکھ کر، پهر گذشتہ واقعات اور پرانی يادیں، اس کے ذہن میں اُبھرنے لگِیں-
ابھی گزشتہ شب ہی تو اُس کے مرحوم دوست نے، اُسی بنگلے میں ایک حسین رقاصہ بلوائی تھی، اور نصف شب تک عيّاشی کی تھی، اور صبح اُسے اطلاع ملی کہ اس کا وہی پيارا دوست، موٹر کار کے حادثے میں مر گيا- دکھ اور غم کے مارے، اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ اشک بہنے لگے-


دوست کے موت کی وجہ سے، اس کے ذہن میں یہ خيال پيدا ہوا کہ اس نے اپنی زندگی میں کتنے زیادہ گناه کيے ہیں- اس کی تمام عُمر کا سرمایہ فقط ظلم اور دھوکیبازی ہے--- اور اگر وه اس حالت میں مر گيا (کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں!) تو وہ کس مُنہ سے خدا کے سامنے جائے گا؟ آخرت کا اُس کے پاس کیا ثمر ہے؟ وہ تو سيدها پوچھ گَچھ کے دوزخ میں جائے گا- یہ سب سوچ کر، وہ کانپ رہا تھا- وہ آج زندگی میں پہلی بار خدا کے خوف سے لرزا تها- اس سے پہلے، موت کبھی بھی اتنا بھیانک لباس پہن کر اس کے خیالوں میں وارد نہیں ہوئی تھی-
اس نے اپنی حیاتِ رفتہ پر نگاه ڈالی- وہ بہت گنہگار تھا- کچھ خاص واقعات، اُس کے ذهن پر اُبهر آئے:
اُس نے لاکھوں روپوں کے چاول اور اناج دیگر ممالک کو سمگل کيے تھے، اور اُس نے دیکھا تھا کہ اس وجہ سے اپنے ديس میں قحط آيا تها، لاتعداد غريب لوگ روٹی تک کھانے کے لیے محتاج ہوئے تھے، اور مہنگائی بڑھی تھی-
سعيد کے خُون میں بھی اُس کے ہاتھ رنگے تھے، یہ خیال، ذہن میں آتے ہی، اُس کے ہاتھ خُود بخُود اُس کی آنکھوں کے آگے آ گئے، اور اُس کی نگاہیں بے اختيار اُن کی طرف اُٹھ گئیں، جیسے سچ مُچ اُن پر وه خُون لگا ہو اور وہ اُسے دیکھ رہا ہو-
سعيد، اس کے کارخانے میں کام کرتا تھا، اور مزدُوروں کی يونين کا لیڈر تھا- مزدُوروں نے ہڑتال کی اور کام بند کیا- وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ سب، سعيد کے ورغلانے پر ہُوا ہے- اُس کو راستے سے ہٹانے کے لیے، ہزاروں روپے دے کر، اس نے دو کرايے کے بدمعاش اُس کے پیچھے لگا دیے، جنہُوں نے سعيد کو قتل کر ديا، اور اس قتل کی کوئی داد و فرياد نہیں ہوئی-
ولی محمّد کے ساتھ اس نے جو حشر کيا تها، وه بھی اسے خُود بخُود تمام جُزيّات کے ساتھ ياد آ گيا- ولی محمّد نے اس سے کسی مجبوری کی حالت میں دو سو روپے سُود پر اُدهار لیے تھے، اور وہ سُود، اس سیٹھ نے اس چالاکی سے مُقرر کيا، کہ ولی محمّد دو سو کے عوض دو ہزار نقد دے چکا تھا، اپنا گهر بھی سیٹھ کے حوالے کر چکا تھا، پھر بھی اس کا قرضہ نہیں اتر پايا- اُس نے جب اس میں اور کوئی امید نہیں دیکھی تو، ولی محمّد پر جهوٹا مقدمہ کر کے، اسے حوالات داخل کروا دیا- پیچھے ولی محمّد کے بال بچّے دربدر ہو گئے- ان کا اور کوئی کمانے والا کفیل نہیں تھا، وہ بیچارے بھیک مانگ کر گزر اوقات کرنے لگے-
عزيزه والی بپتا تو ابھی تازه تھی- وہ اس کی جواں عمر نوکرانی تھی، جوبن اور امنگوں سے بهرپُور- اُس نے بدنامی سے بچنے کی غرض سے، زہر کها کر، خودکشی کر لی، کیونکہ وہ ماں بننے والی تھی، سیٹھ کے بچے کی ماں---
آج یہ تمام واقعات آگ کے تودے بن کر، سیٹھ کے دل اور دماغ کو روند رہے تھے- وہ حد سے زیادہ پريشان ہو رہا تھا- اُن تمام خيالوں سے نجات حاصل کرنا چاہ رہا تھا، مگر وہ ہر گزرتے لمحے اس کو مزيد جَکڑتے جا رہے تھے- دوست کے حادثے نے، اُسے نيا احساس ديا تها- موت، دوزخ اور خدا کے خوف نے اس کے حوصلے پست کر دیے تھے-
اُس کو اپنی زندگی کی کتاب کے اوراق پر صرف دهوکيبازیوں، فراڈ، بے ايمانیوں، چور بازاريوں، ظلم اور زيادتيوں ہی کے عنوان نظر آ رہے تھے- وہ مہا شرابی تھا، وہ بڑا سمگلر تھا، وہ بڑا جُواری تھا، اور ان تمام سياه کار گذاریوں میں اس کا وہی دوست، اس کا ساتھی اور مُشير رہ چکا تھا-
وه سوچنے لگا کہ نيک کام تو میں نے کبھی بُھول کر بھی نہیں کیا ہوگا- عبادت کے ساتھ بھی تمام عمر ميرا بَير ہی رہا ہے--- اس کا مطلب یہ ہُوا کہ میں جہنمی ہوں--- ”جہنم“ کا لفظ، اُس کے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اُتر رہا تھا- وه سوچ رہا تھا کہ ”میری آخرت شبِ تاريک کی طرح اندھیری ہے، دشت کی طرح ويران، اور آفريقا کے جنگلات سے زیادہ بهيانک!“
وہ جذبات کی شدّت سے کانپ رہ تھا- اس کی پيشانی پر پسینے کے قطرے عياں تھے- اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا-
میں نے تمام عمر عيش ہی کیا ہے، میرے جیون کی ایک ایک گھڑی گناه میں گذری ہے- وه کون سا مزه ہے، جو میں نے نہ لُوٹا ہو، میرے پاس دولت کے انبار ہیں، اور دولت سب کچھ کر سکتی ہے- مگر یہ موت، یہ دوزخ--- اب میں کیا کروں --- کیا کوئی چاره ہی نہیں!؟
اچانک اس کے رنگ رُوپ میں تبدیلی آ گئی- اس میں نئی جان پڑ گئی- اس کے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے، اور اس نے فيصلہ کر ليا کہ ”میں اس سال حج پہ جاؤں گا- میرے تمام گناہ اور برائياں دُهل جائیں گی، اور میں ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے نومُولود کی طرح معصوم ہو کر لوٹوں گا!“
٭
تحرير: ۱۵ مارچ ۱۹۵۷، رانی پور
شايع شده: ماہنامہ ”نئيں زندگی“ - جُون ۱۹۵۹ء
اور کتاب: ”پتهر تے لِيکو“ (سندهی) از: نجم عبّاسی (شايع: ۱۹۷۳ء)

(ہفتہ، ٢٢ ذی الحجہ ١٤٤٠ ھ ــ ۲۴ اگست ۲۰۱۹ء)

No comments:

Post a Comment