Friday, August 23, 2019

وه رات


وه رات
سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ
تحرير: ع .ق. شيخ | ترجمہ: یاسر قاضی
رات تھی اور اندھیری رات--- اُنتیسویں کی رات کی تاریکی حتی الامکان، ذرّے ذرّے کو تاريک کئے ہوئے تھی- دنيا نيند کی آغوش میں بے پرواہ آرامی تھی- آسمان بادلوں سے ڈھکا ہُوا تھا- میں کسی کی بُھولی ہوئی ياد کو اپنے سینے میں دل کی طرح چُهپائے--- تنہا، شہر سے باہر--- دُور ایک چشمے کے کنارے بے خبر کسی کی خیالی پرستش میں محو تها- آبشاروں کی آواز، میرے دل کو بے چين کر رہی تھی-
پہاڑ کی چوٹی پر سے کوئی انتہائی مدُهر سُروں میں گا رہا تھا- جس کے بولوں کا مطلب کچھ اس طرح تھا---
”اے محبت کی شروعات!--- تیری آرزُو--- کتنی حسين اور دلکش تھی--- مگر افسوس! تيرا انجام بھی اگرچہ خوشرُو تھا--- مگر موت کا سياہ نقاب--- اوڑھے---“


یہ محبّت کا پيغام بالکل معمُولی مگر پُرسوز تها- میرے ناسُور پر جیسے نشتر کا وار ہُوا- دم گُهٹنے لگا- آہستہ آہستہ سسکیاں، اشکوں میں اور آنسُو خيالات میں تبدیل ہونے لگے- بِيتا اور بُھولا ہوا زمانہ مُحبّت کا--- لمحے لمحے کی تصويروں سے دل خوش کرنے والی رات--- وه رات--- جس کی ياد میری زندگی کا قیمتی خزانہ تھی، ياد آئی.... سامنے لبِ آبشار بیٹھ کر--- کسی کے ساتھ--- چاندنی رات--- میں تنہا!--- پريت کی رِيت سُنانے کے لیے--- مُنتظر--- خاموش ہی نہیں ہوتے تھے--- چاند چمک چمک کر کائنات کو سونا کر ديتا تها---
پريتم کی زلفیں--- سونا--- زمين بھی سونا--- آبشار بھی سونا--- پانی سونا--- شجر و درخت بھی سونے کے--- ہوا میں مستی اور خوشبو--- آبشار کی آوازوں سے---! ہمارے دل--- ایک ساتھ--- بہ يک وقت تڑپ رہے تھے- کونپلیں ہماری محبّت دیکھ کر مُسکرا رہی تھیں- چاند شرما کر گُم ہوا جا رہا تھا- ستارے اپنی آنکھیں بند کیے، پهر کھولے، لاج کے مارے شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے- سُورج نے بيتاب ہو کر جھانکا- پَنچهیوں نے چِیں--- چِیں--- کی آواز سے شور مچا رکها تها-
مگر افسوس! تھیں تو اب بھی وہی راتيں--- وہی وقت کے رنگين نظارے--- غُنچے--- پُهول اور آبشار--- مگر اب دُنيا بدل چُکی تھی- میرے لیے- بالکل بدل چُکی تھی- بے مزے--- بے رُوح اور بے خيال بھٹک رہا تھا- دنيا میں--- میں--- زندگی سے بيزار تھا-
آہ! آخر کیوں! اتنی بڑی اور وسيع دُنيا میں اُس کے لیے رہنا گناه سمجها جا رہا تھا- ہاں گناه سمجها جا رہا تھا- بَد دِل انسان--- حريص--- اسے گناہ کہہ رہے تھے- پاپ--- مہا پاپ--- کیوں کہ وہ میرے دل میں گهر کر چُکی تھی- میری بن چکی تھی--- اور میں اُس کا---
میں ماضی کی ہلکی، مگر گُمگشتہ اور غير واضح تصويروں کے نقُوش پر--- گذشتہ حالات پر غور کر رہا تھا- اچانک ايک بادل پَھٹا--- اور ايک چمکتا ستاره مُسکراتا ہوا میری طرف بڑھنے لگا-- کيا وه میری بے کَسی پر ہنس رہا تھا---؟ نہیں--- مگر یہ ایسی مسکُراہٹ تھی، جو ایک بِچهڑے ساجن کی ياد سے کسی کے ہونٹوں پر آئی ہو---
ويران دنيا میں آسمان کی دلہن نے تجلّی کے بارِيک نقاب میں اپنا مُنہ چُهپا ليا--- وہی نگاہیں اُس رنگين ستارے کے اوپر رقص کرنے لگیں--- ستاره آہستگی سے--- میری طرف بڑھ رہا تھا- اب بہت نزدیک--- بالکل قريب تها--- اس حد تک کہ میری رگ رگ جمال کی تابش کے زيرِ اثر ہونے لگی---- میں نے اُسے غور سے ديکها---
میں! وہی--- ہُوبہُو--- تصوير--- نہیں نہیں--- میرا ساجن تھا--- سچ مُچ--- میں تو خیالوں کی گود میں اُس کی تصوير بنائے بيڻها تها-
”سرکار، اتنی نیند---!“ نوکر بَڑبَڑا رہا تھا-
میں نے زبردستی اپنی آنکھیں کھولِیں--- کب سے صبح ہو چکی ہے اور سُورج بھی نکل آیا ہے---

(جُمعہ، ٢١ ذی الحجہ ١٤٤٠ ھ ــ ۲۳ اگست ۲۰۱۹ء)

No comments:

Post a Comment