Thursday, August 22, 2019

گِرتی ہوئی دیواریں


گِرتی ہوئی دیواریں
سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ
تحرير: شوکت حسين شورو | ترجمہ: یاسر قاضی

دیواریں گِر رہی تھیں!
وہ اپنے قیمتی لباس کو سبھالتے ہوئے پاس آئی- جب اُنگلی اس کے ہونٹوں پر آئی-
"یہ تو گِر رہی ہیں-"
دیواریں خاموش تھیں- دیواروں کو زبان کہاں!
"شکر ہے کہ میں اس گھر میں نہیں آئی-"
- ہاں
دیواریں
گِر رہی
ہیں---
دیواریں
گِر رہی
ہیں---


اُس نے ششدر ہو کر دیکھا- دیواریں نہیں بولی تھیں، صرف ہوا کی سرسراہٹ تھی- دیواروں کو زبان کہاں!
اِینٹوں نے گَلنا شروع کر دیا تھا- دروازہ دیواروں سے اُکھڑا ہوا تھا-
"اندر کوئی رہتا ہے کیا؟" اس نے اپنے آپ سے پوچھا-
"کوئی ہے؟ کوئی ہے؟" اس نے پکارا-
کہیں سے کسی کے کراہنے کی آواز کانوں سے ٹکرائی- یا ہوا کا جھونکا تھا-
"اندر صرف چمکادڑ ہونگے، یا انسان ہونگے؟ کوئی تو ہوگا--- کوئی تو ہوگا!" کوئی بھی نہیں تھا- بس ہوا کا جھونکا تھا-
"اندر جا کر دیکھیں- شاید کوئی ہو-
آخر ضرُورت ہی کيا ہے؟ میں صرف دیکھنا چاہتی تھی- ایسے ہی تجسّس کے مارے معلوم کرنا چاہتی تھی- برسوں کے بعد اگر کوئی یاد آتا ہے، تو اُسے دیکھنے کو بھی دل چاہتا ہے، اس میں حرج ہی کیا ہے---"
ہاں
اس
میں
حرج
ہی
کیا
ہے---
اس
میں
حرج
ہی
کیا ہے---

ديوار کے پلاسٹر کا ایک ٹکڑا آ گرا اور دیوار برہنہ ہو گئی-
"یہ تو خطرناک ہے- کسی بھی وقت دیواریں زمین بوس ہو جائیں گی--- شُکر، کہ میں نہیں رہی- خدا کی پناہ، دیواریں مُنہدم ہو رہی ہیں! اندر کوئی رہتا ہے؟ کپڑے خراب ہو جائیں گے اور دیواریں گر رہی ہیں- قريب جانا ٹھیک نہیں ہے---"
ہاں!
قريب
آنا
ٹھیک
نہیں
ہے---
آنا
ٹھیک
نہیں
ہے---

"کون بولا؟ دیواریں بولیں! مگر دیواروں کو زبان کہاں ہے!"
دروازے کا دستہ بھی نہیں تھا، جس کو کھٹکھٹایا جائے- دروازہ دیوار سے اُکھڑا ہوا تھا- گھر کا داخلی راستہ کسی بُوڑھے آدمی کے مُنہ کی طرح تھا- اُس کو بھی ہنسی آ گئی- دو چار اینٹیں پِھسل کر گِر پڑیں-
"اندر بُھوت ہونگے، یہاں کوئی بندہ کیسے رہے گا--- دستہ بھی نہیں ہے---"
اس نے ایک پتھر اُٹھا کر اندر پھینکا- اینٹوں کے گِرنے کی آواز آئی اور ہَوا سر کے اوپر سے چِیختی گُزر گئی- اُس نے اپنے قیمتی لباس کو پهر سنبھالا-
اِینٹوں کا گِرنا بند نہ ہوا- ٹُوٹنے کی آواز واضح تھی-
اچانک سے اندر سے کوئی برآمد ہوا-
بندہ تھا یا بھوت تھا--- یا پھر بُهوت نُما انسان تها-

- کون ہے! کون ہے؟
بُھوت کی مَری ہوئی چِيخ- خوفزده بُهوت!
وہ ڈر گئی اور پاؤں پیچھے ہٹنے لگے- (پاؤں تو بہت پہلے ہی ہٹ چکے تھے!)
"میں آئی کیوں! میں تو صرف دیکھنا چاہتی تھی--- مگر نہیں آنا چاہیے تھا- اب کیا فائده!"
اب
کیا
فائده!
اب---

بُهوت آگے بڑھا-
- یہاں کسی کا کیا کام ہے؟ یہاں تو کھنڈرات کی عظمت بھی نہیں ہے- یہاں کسی کا کیا کام ہے!
بھوت آگے بڑھتا گیا-
خوفزده وجُود کانپ اُٹها-
"بُهوت!---"
اس نے بھاگنا چاہا- اس نے بھاگنا شروع کیا-
"مجھے کس سانپ نے کاٹا تھا---"
وہ دوڑتی گئی، انسانوں کی بستی میں پناہ لینے- ہَوا سَر کے اوپر سے چیختی گئی- وہ دُور نکل آئی، مگر ٹُوٹنے کی آواز ابھی تک آ رہی تھی اور دیواریں گر رہی تھیں-

(جُمعرات، ٢٠ ذی الحجہ ١٤٤٠ ھ ــ ۲۲  اگست ۲۰۱۹ع)

No comments:

Post a Comment