گِرتی ہوئی دیواریں
سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ
تحرير: شوکت حسين شورو | ترجمہ: یاسر قاضی
وہ اپنے قیمتی لباس کو سبھالتے ہوئے پاس آئی- جب اُنگلی
اس کے ہونٹوں پر آئی-
"یہ
تو گِر رہی ہیں-"
دیواریں خاموش تھیں- دیواروں کو زبان کہاں!
"شکر
ہے کہ میں اس گھر میں نہیں آئی-"
-
ہاں
دیواریں
گِر رہی
ہیں---
دیواریں
گِر رہی
ہیں---
اُس نے ششدر ہو کر دیکھا- دیواریں نہیں بولی تھیں، صرف
ہوا کی سرسراہٹ تھی- دیواروں کو زبان کہاں!
اِینٹوں نے گَلنا شروع کر دیا تھا- دروازہ دیواروں سے
اُکھڑا ہوا تھا-
"اندر
کوئی رہتا ہے کیا؟" اس نے اپنے آپ سے پوچھا-
"کوئی
ہے؟ کوئی ہے؟" اس نے پکارا-
کہیں سے کسی کے کراہنے کی آواز کانوں سے ٹکرائی- یا ہوا
کا جھونکا تھا-
"اندر
صرف چمکادڑ ہونگے، یا انسان ہونگے؟ کوئی تو ہوگا--- کوئی تو ہوگا!" کوئی بھی
نہیں تھا- بس ہوا کا جھونکا تھا-
"اندر
جا کر دیکھیں- شاید کوئی ہو-
آخر ضرُورت ہی کيا ہے؟ میں صرف دیکھنا چاہتی تھی- ایسے
ہی تجسّس کے مارے معلوم کرنا چاہتی تھی- برسوں کے بعد اگر کوئی یاد آتا ہے، تو
اُسے دیکھنے کو بھی دل چاہتا ہے، اس میں حرج ہی کیا ہے---"
ہاں
اس
میں
حرج
ہی
کیا
ہے---
اس
میں
حرج
ہی
کیا ہے---
ديوار کے پلاسٹر کا ایک ٹکڑا آ گرا اور دیوار برہنہ ہو
گئی-
"یہ
تو خطرناک ہے- کسی بھی وقت دیواریں زمین بوس ہو جائیں گی--- شُکر، کہ میں نہیں رہی-
خدا کی پناہ، دیواریں مُنہدم ہو رہی ہیں! اندر کوئی رہتا ہے؟ کپڑے خراب ہو جائیں
گے اور دیواریں گر رہی ہیں- قريب جانا ٹھیک نہیں ہے---"
ہاں!
قريب
آنا
ٹھیک
نہیں
ہے---
آنا
ٹھیک
نہیں
ہے---
"کون
بولا؟ دیواریں بولیں! مگر دیواروں کو زبان کہاں ہے!"
دروازے کا دستہ بھی نہیں تھا، جس کو کھٹکھٹایا جائے-
دروازہ دیوار سے اُکھڑا ہوا تھا- گھر کا داخلی راستہ کسی بُوڑھے آدمی کے مُنہ کی
طرح تھا- اُس کو بھی ہنسی آ گئی- دو چار اینٹیں پِھسل کر گِر پڑیں-
"اندر
بُھوت ہونگے، یہاں کوئی بندہ کیسے رہے گا--- دستہ بھی نہیں ہے---"
اس نے ایک پتھر اُٹھا کر اندر پھینکا- اینٹوں کے گِرنے
کی آواز آئی اور ہَوا سر کے اوپر سے چِیختی گُزر گئی- اُس نے اپنے قیمتی لباس کو
پهر سنبھالا-
اِینٹوں کا گِرنا بند نہ ہوا- ٹُوٹنے کی آواز واضح تھی-
اچانک سے اندر سے کوئی برآمد ہوا-
بندہ تھا یا بھوت تھا--- یا پھر بُهوت نُما انسان تها-
-
کون ہے! کون ہے؟
بُھوت کی مَری ہوئی چِيخ- خوفزده بُهوت!
وہ ڈر گئی اور پاؤں پیچھے ہٹنے لگے- (پاؤں تو بہت پہلے
ہی ہٹ چکے تھے!)
"میں
آئی کیوں! میں تو صرف دیکھنا چاہتی تھی--- مگر نہیں آنا چاہیے تھا- اب کیا فائده!"
اب
کیا
فائده!
اب---
بُهوت آگے بڑھا-
-
یہاں کسی کا کیا کام ہے؟ یہاں تو کھنڈرات کی عظمت بھی
نہیں ہے- یہاں کسی کا کیا کام ہے!
بھوت آگے بڑھتا گیا-
خوفزده وجُود کانپ اُٹها-
"بُهوت!---"
اس نے بھاگنا چاہا- اس نے بھاگنا شروع کیا-
"مجھے
کس سانپ نے کاٹا تھا---"
وہ دوڑتی گئی، انسانوں کی بستی میں پناہ لینے- ہَوا سَر
کے اوپر سے چیختی گئی- وہ دُور نکل آئی، مگر ٹُوٹنے کی آواز ابھی تک آ رہی تھی اور
دیواریں گر رہی تھیں-
(جُمعرات،
٢٠ ذی الحجہ ١٤٤٠
ھ ــ ۲۲ اگست ۲۰۱۹ع)
No comments:
Post a Comment